فتح مکہ 8 ہجری 20  رمضان المبارک (630 عیسوی)

بیس رمضان المبارک کا دن وہ دن ہے جو مسلمانوں کے لیے فتح مبین بن کر ثابت ہوا۔ 

اللہ رب ذوالجلال فرماتے ہیں: “یَنْصُرَکَ اللّهُ نَصْراً عَزِیزاً”۔ بے شک اللہ آپ کی زبردست مدد فرمائیں گے۔ تو حق آیا، باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے۔ 20 رمضان المبارک، فتح مکہ، فتح مبین، جب 313 جانثاروں سے شروع ہونے والا قافلہ عظیم 10 ہزار صحابہ کے لاؤ لشکر کے ساتھ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے مکہ میں داخل ہو رہا ہے۔ فتح مکہ، جب دنیا پر مسلمانوں کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ فتح مکہ، جب سرزمین عرب سے شرک کی حاکمیت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ فتح مکہ، جب خود رسول خدا ایک ایک کر کے 360 بتوں کو اپنے ہاتھ سے ڈھا رہے ہیں۔ فتح مکہ، جب کعبۃ اللہ کو بتوں اور ان کی تصاویر کے ناپاک وجود سے پاک کیا جا رہا ہے۔ فتح مکہ، جب مسلمان بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف کر رہے ہیں۔ فتح مکہ، جب کعبے کی چھت سے حضرت بلال اللہ کی وحدانیت کا علم بلند کر رہے ہیں۔ 

یہ وہی مکہ ہے جہاں رحمت اللعالمین کی سچائی کو جھٹلا دیا گیا۔ دوران عبادت آپ پر اونٹ کی گندی اوجھڑی ڈالی گئی۔ جہاں شعب ابی طالب میں آپ صحابہ کی مختصر جماعت کے ساتھ محاصرے میں رہے۔ آج وہی کفار مکہ ہتھیار ڈال چکے ہیں اور اپنی قسمت کے منتظر ہیں۔ رحمت اللعالمین ہونے کا منظر دنیا دیکھ رہی ہے اور تاریخ میں لکھا جا رہا ہے۔ آپ پر کنکری مارنے والے، گندگی پھینکنے والے، برا بھلا کہنے والے کانپ رہے ہیں۔ چاروں طرف دوڑ رہے ہیں، امان مانگ رہے ہیں۔ آج زمین پر ان کے پاس چھپنے کی کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ خوف میں سارا عالم ڈوبا ہوا ہے۔ 

پھر رحمت اللعالمین اعلان کروا رہے ہیں: “جس کو امان چاہیے، بیت اللہ میں آجائے۔ جس کو امان چاہیے، وہ ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے۔ جس کو امان چاہیے، وہ اپنے گھر کے دروازوں کو بند کر لے۔”

تاریخ انسانی کا عجب واقعہ ہے کہ جہاں فاتحین سروں کو جھکائے رب کے حضور پیش ہو رہے ہیں، دشمن ایسی شکست پر مشکور ہے۔ ایسا منظر نہ پہلے کبھی دیکھا گیا اور نہ اس کے بعد۔ 

یہ صرف مکہ کو فتح کرنے کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ ہزاروں دلوں کو فتح کرنے کا دن ہے۔ یہ اپنے بدترین دشمن کو اپنا عزیز ترین دوست بنانے کا دن ہے۔ یہ اللہ کے لیے کی جانے والی دشمنی کو اللہ کے لیے کی جانے والی محبت میں بدلنے کا دن ہے۔ آج ذرا سی طاقت ملنے پر بدمست ہو جانے والوں کے لیے سیکھنے کا دن ہے۔

 سیاست ہو یا ریاست، ترجیح گلے لگانے کے بجائے انجام تک پہنچانے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے نصیحت کا دن ہے۔ معاشرے کو تقسیم کرنے والوں کے لیے عبرت کا دن ہے۔ معافی اور عفو و درگزر کی راہ کو اپنانے کا دن ہے۔ لوگوں کو نہیں، بلکہ ان کے دل و دماغ کو جیتنے کا دن ہے۔ ظاہر کے نہیں، باطن کے بتوں کو گرانے کا دن ہے۔

 آج تسلیم کرنے کا دن ہے کہ طاقتور وہ ہے جو قوت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دے۔ آج یہ سمجھنے کا دن ہے کہ بندوں سے لڑائی اللہ کے خاطر ہے، اپنے نفس کے خاطر نہیں ہے۔ آج کا دن بتاتا ہے کہ اگر اللہ طاقت و حکمرانی عطا کر دے، تو عاجزی اختیار کریں، جھک جائیں۔ ورنہ جو طاقت اور شہرت، تخت و تاج دیتا ہے، وہ لینا بھی جانتا ہے، حساب کرنا بھی جانتا ہے، اور سزائیں بھی دیتا ہے۔ چاہے وہ سزا دنیا میں ہو یا آخرت میں۔

فتح مکہ تحریر

 

بے شک! میں آپ کو 20 رمضان المبارک اورفتح مکہ کی تفصیل پیش کرتا ہوں، جو اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ تھا، بلکہ یہ معافی، انصاف، اور حق کی باطل پر فتح کا ایک بہت بڑا سبق بھی ہے۔

فتح مکہ کا پس منظر

فتح مکہ 8 ہجری (630 عیسوی) میں  20  رمضان المبارک کو پیش آیا۔ یہ واقعہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی مسلمانوں کی سالہا سال کی جدوجہد، صبر اور استقامت کا نتیجہ تھا۔ اس واقعے سے پہلے، قریش مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیروکاروں پر سخت ظلم و ستم ڈھائے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ اس کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور پرامن حل کی کوششیں کیں۔

فتح مکہ کا فوری سبب معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی۔ قریش نے ایک ایسے قبیلے کے ساتھ اتحاد کیا جس نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے پر حملہ کیا، جس سے معاہدے کی شرائط ٹوٹ گئیں۔ اس نے مسلمانوں کو مکہ کی طرف پیش قدمی کا جائز سبب فراہم کیا۔

مکہ کی طرف پیش قدمی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10,000 صحابہ کی فوج اکٹھی کی اور مکہ کی طرف کوچ کیا۔ یہ منظر ابتدائی دور کے مسلمانوں کی حالت سے بالکل مختلف تھا، جب وہ ایک چھوٹا سا مظلوم گروہ تھے۔ مسلمانوں کی فوج مکہ میں بغیر کسی بڑی مزاحمت کے داخل ہوئی، کیونکہ قریش مسلمانوں کی فوج کے عزم اور تعداد سے گھبرا گئے تھے۔

فتح: ایک بے خون فتح

فتح مکہ کا ایک انتہائی قابل ذکر پہلو یہ تھا کہ یہ **بغیر خون بہائے** حاصل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو ہدایت دی تھی کہ وہ تشدد سے گریز کریں، سوائے اس کے جب یہ ناگزیر ہو۔ اس نے رحمت اور تحمل کے اسلامی اصولوں کو ظاہر کیا، چاہے فتح کا موقع ہی کیوں نہ ہو۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے، تو انہوں نے مکہ کے لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور فرمایا:

لا تثريب عليكم اليوم، اذهبوا فأنتم الطلقاء” 

“آج تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔”

یہ معافی کا عمل انتہائی غیر معمولی تھا، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمانوں نے سالہا سال ظلم و ستم برداشت کیا تھا۔ حتیٰ کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے خلاف سنگین جرائم کیے تھے، انہیں بھی معاف کر دیا گیا۔

بتوں کی تباہی

مکہ میں داخل ہونے کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف گئے، جو اللہ کا مقدس گھر تھا، لیکن اسے مشرکین نے بتوں سے بھر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اردگرد موجود 360 بتوں کو تباہ کیا اور یہ آیت پڑھی:

“وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا” 

“اور کہو، حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے والا ہی ہے۔” (قرآن 17:81)

یہ عمل شرک (بت پرستی) کے خاتمے اورتوحید (اللہ کی وحدانیت) کے قیام کی علامت تھا۔ کعبہ کو پاک کیا گیا اور اسے اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر دیا گیا۔

بلال کی اذان

کعبہ کی تطہیر کے بعد، حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ، جو ایک سابق غلام اور اسلام کے ابتدائی مبلغین میں سے تھے، کو کعبہ کی چھت پر **اذان** دینے کے لیے کہا گیا۔ یہ ایک انتہائی طاقتور لمحہ تھا، جب بلال کی آواز مکہ میں گونجی، جو اللہ کی وحدانیت اور اسلام کی فتح کا اعلان کر رہی تھی۔ یہ ظلم اور امتیاز کے خلاف ایک علامتی فتح تھی، جس کا سامنا بلال اور دیگر کمزور لوگوں نے کیا تھا۔

فتح مکہ سے حاصل ہونے والے سبق

فتح مکہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے؛ یہ انسانیت کے لیے بہت بڑے سبق کا ذریعہ ہے:

حق کی باطل پر فتح

   اس واقعے نے ثابت کیا کہ حق اور انصاف ہمیشہ غالب آتے ہیں، چاہے باطل کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔

رحمت اور معافی

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سابقہ دشمنوں کو معاف کر کے رحمت اور ہمدردی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ یہ ہمیں انتقام اور نفرت سے بالاتر ہونے کا سبق دیتا ہے۔

فتح میں عاجزی

   ایک بڑی فتح حاصل کرنے کے باوجود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سر جھکائے داخل ہوئے، جو اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے نہ کہ اپنی کامیابی پر فخر۔

اتحاد اور بھائی چارہ

   فتح مکہ نے مختلف قبائل اور پس منظر کے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے اکٹھا کیا، جو اتحاد کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔

 ظلم کا خاتمہ 

   بتوں کی تباہی اور توحید کے قیام نے ظلم اور جاہلیت کا خاتمہ کیا، جس کی جگہ انصاف اور روشن خیالی نے لے لی۔

ایمان کی طاقت 

   اس واقعے نے ثابت کیا کہ اللہ پر کامل ایمان کے ساتھ، ہر مشکل کو عبور کیا جا سکتا ہے۔

فتح مکہ کے بعد

فتح مکہ کے بعد، مکہ کے لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ تبدیلی پرامن ہو اور ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں۔ یہ واقعہ اسلام کے تیزی سے پھیلاؤ کا نقطہ آغاز تھا، جو پورے عرب اور اس سے باہر پھیل گیا۔

اختتام

 20 رمضان المبارک اور فتح مکہ صرف تاریخی واقعات نہیں ہیں؛ یہ انسانیت کے لیے رہنمائی اور تحریک کا ذریعہ ہیں۔ یہ ہمیں ایمان کی طاقت، معافی کی اہمیت، اور حق کی باطل پر فتح کی یاد دلاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعے میں کیے گئے اقدامات ہمیں سکھاتے ہیں کہ کامیابی کو کیسے انصاف، عاجزی اور ہمدردی کے ساتھ حاصل کیا جائے۔

 

Leave a Comment