یوم پاکستان پر مضمون،تقریر

یوم پاکستان پر مضمون،تقریر،تحریر

لا نہ سکے گا تاب فرنگ میری نواؤں کی

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی

آج کی اس بزم میں، میں نے اپنے الفاظ کو جذبات کی شمشیر آب دار میں کچھ اس طرح پر دیا ہے کہ ماضی کی تمام تر تلخیاں سمٹ کر ہونٹوں پر آگئی ہیں۔ وہ زیادتیاں جو قیام پاکستان سے پہلے مسلمانانِ ہند کا مقدر بن چکی تھیں میرے دل کو بے چین کر رہی ہیں۔ میرے دل کو اس وقت تک تسلی نہ ہو گی جب تک میں آزادی کے پروانوں کو خراج تحسین پیش نہ کروں اور ایسا کرنے کے بعد بھی میں یہی کہوں گا، حق تو یہ ہے کہ حق ا نہ ہوا۔ میں اپنے آپ کو تاریخ پاکستان کی کہانی کا ادھورا کردار سمجھتا ہوں اور عظمت رفتہ کی پکار بھی جو ماضی کی پُر پیچ راہوں میں گم ہے۔ میں اپنے اندر وہ صدا سن سکتا ہوں جو کبھی محمد بن قاسم کی للکار بن جاتی تھی تو کبھی فتح علی ٹیپو کی دھاڑے میں تحریک پاکستان کے ان کرداروں کو کبھی نہیں بھول سکتا جنہوں نے ایک خواب کو حقیقت میں بدلنے کے ادا لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

جناب صدر!

مجھے ان کرداروں سے عقیدت ہے جن کے دامنِ تارتار نے ہندوستان میں  بکھری بنگالی، سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ قوم کو اتحاد کی ایک مالا میں پرویا تھا۔ میں ان لمحات کو کبھی نہیں بھلا سکتا جب 23 مارچ 1940 کو مسلمانوں نے نار جہنم سے رہائی کے لئے علم بلند کیا تھا۔ میں اُن لمحات کا امین ہوں جب سامراجیوں کے ظلم و استبداد کی کرچیوں نے غریب الوطن مسلمانوں کے دامن کو لہولہان کر دیا تو اُن کی پکار ان الفاظ میں ڈھل گئی تھی۔

ترجمہ: اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے سخت ظالم ہیں اور ہمارے لئے غیب سے کسی کو دوست اور حامی بنا کر بھیج “

خاصہ داران علم !

 پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بحر رحمت جوش میں آ گیا اور 23 مارچ 1940ء کا دن غلامی سے آزادی کے سفر کا استعارہ بن گیا۔ اور آج ہم اسی دن کی یاد میں جمع ہوئے ہیں۔ جی ہاں ! بات ہو رہی تھی غلامی سے آزادی کے سفر کی ! لوگ کہتے ہیں کہ ماضی کو بھول جاؤ جو ہوا سو ہوا لیکن میں کیا کروں، ماضی کی دھند میں کھوئی آواز میں چلا چلا کر باور کروا رہی ہیں . تم بھول چکے ہو آزادی کیا ہے؟ تمہیں کیا معلوم کہ غلامی کا دکھ کیا ہے؟ تم کیا جانو کہ شب ظلمت کیا ہے؟ وہ تاریک راتیں کہ جن میں بے شمار قافلے منزل کا نشاں ہی کھو بیٹھے تھے۔ بیٹیوں نے سر پر آنچل ڈال کر دعا کی تھی یا اللہ ! تو ہمیں پاکستان عطا کر لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ پھولوں کو پانے کے لئے کانٹوں کے زخم جھیلنا پڑتے ہیں؟ اور پھر کسے خبر تھی کہ کارواں کے مسافروں کو نجانے کتنے بھیڑیے اپنے خونخوار پنجوں سے نوچ ڈالیں گے۔ اور انہیں کیا معلوم تھا کہ حصولِ پاکستان کی کہانی اتنی خونچکاں ہوں گی ، ہر سمت لاشوں کے انبار ہوں گے اور سر چھپانے کو چھت بھی میسر نہ ہو گی۔

حاضرین!

23 مارچ 1940ء تاریخ عالم کا ایک اہم دن ہے۔ یہ دن پر عزم قوم کی فتح کا دن ہے۔ اس دن ہمارے وطن کی عمارت میں لگنے والی پہلی اینٹ قربانیوں کے خون سے تر کی گئی، محبتوں کے خمیر میں گوندی گئی، الفتوں کی دھوپ میں پکائی گئی اور رحمتوں کے پانی سے شفاف بنائی گئی تب پاکستان کی عمارت میں سجائی گئی۔ منٹو پارک کے مقام پر منظور کی جانے والی یہ قرار داد ہی دراصل قیام پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ قائد اعظم نے کہا! اے ہندوستان والو! ہمیں ایک الگ ملک کی ضرورت ہے وہ ملک جہاں خوشیوں کے پھول کھلیں گے جہاں مسلمان ایک جسم کی مانند ہوں گے۔ پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی، کشمیری اور گلگتی علاقائی منافرت بھول کر پاکستان پر مرمٹنے کے

لئے تیار ہوں گے۔

جناب صدر!

اپنے خیالات کو ممیز دیتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ 23 مارچ کا دن ایک طویل جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جب مسلمانوں نے قوت بازو سے پاکستان کے قیام کو

ممکن بنایا جو کہ ہندوؤں اور انگریزوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا:۔

جوڑ کے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے

راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

Leave a Comment